Lammi Raat Si

Music Video

FAIZ AHMED FAIZ ' s PUNJABI NAZM BY HUMERA CHANA
Watch {trackName} music video by {artistName}

Credits

PERFORMING ARTISTS
Faiz Ahmed Faiz
Faiz Ahmed Faiz
Performer
COMPOSITION & LYRICS
Faiz Ahmed Faiz
Faiz Ahmed Faiz
Songwriter

Lyrics

نقشِ فریادی کے ابتدائی اشعار ہیں رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے ایک مختصر نظم ہے، 'تنہائی' پھر کوئی آیا دلِ زار، نہیں، کوئی نہیں پھر کوئی آیا دلِ زار نہیں کوئی نہیں راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سُراغ گل کرو شمعیں، بڑھا دو مے و مینا و ایاغ اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا ایک اور نظم ہے چند روز اور، مری جان، فقط چند ہی روز ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم اور کچھ دیر ستم سہہ لیں تڑپ لیں رو لیں اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں اور اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں اک ذرا صبر، کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں عرصۂ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں ہم کو رہنا ہے پہ یوں ہی تو نہیں رہنا ہے اجنبی ہاتھوں کا بے نام گراں بار ستم آج سہنا ہے، ہمیشہ تو نہیں سہنا ہے یہ ترے حسن سے لپٹی ہوئی آلام کی گرد اپنی دو روزہ جوانی کی شکستوں کا شمار چاندنی راتوں کا بے کار دہکتا ہوا درد دل کی بے سود تڑپ، جسم کی مایوس پکار چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز اِس نظم کا عنوان ہے 'بول' بول کہ لب آزاد ہیں تیرے بول، زباں اب تک تیری ہے تیرا ستواں جسم ہے تیرا بول کہ جاں اب تک تیری ہے دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں تند ہیں شعلے سرخ ہے آہن کھلنے لگے قفلوں کے دہانے پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے جسم و زباں کی موت سے پہلے بول کہ سچ زندہ ہے اب تک بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے اِس نظم کا عنوان ہے 'موضوعِ سخن' گل ہوئی جاتی ہے افسردہ سلگتی ہوئی شام دھل کے نکلے گی ابھی چشمۂ مہتاب سے رات اور مشتاق نگاہوں کی سنی جائے گی اور اُن ہاتھوں سے مس ہوں گے یہ ترسے ہوئے ہات اُن کا آنچل ہے کہ رخسار کہ پیراہن ہے کچھ تو ہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگی جانے اُس زلف کی موہوم گھنی چھاؤں میں ٹمٹماتا ہے وہ آویزہ ابھی تک کہ نہیں آج پھر حسن دل آرا کی وہی دھج ہوگی وہی خوابیدہ سی آنکھیں وہی کاجل کی لکیر رنگِ رخسار پہ ہلکا سا وہ غازے کا غبار صندلی ہاتھ پہ دھندھلی سی حنا کی تحریر اپنے افکار کی اشعار کی دنیا ہے یہی جانِ مضموں ہے یہی شاہد معنی ہے یہی اور آج تک سرخ و سیہ صدیوں کے سائے کے تلے آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے؟ موت اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں ہم پہ کیا گزرے گی، اجداد پہ کیا گزری ہے؟ اِن دمکتے ہوئے شہروں کی فراواں مخلوق کیوں فقط مرنے کی حسرت میں جیا کرتی ہے یہ حسیں کھیت پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا! کس لیے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے یہ ہر اک سمت پر اسرار کڑی دیواریں جل بجھے جن میں ہزاروں کی جوانی کے چراغ یہ ہر اک گام پہ اُن خوابوں کی مقتل گاہیں جن کے پرتو سے چراغاں ہیں ہزاروں کے دماغ یہ بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے لیکن اُس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ ہائے اس جسم کے کمبخت دل آویز خطوط آپ ہی کہیے کہیں ایسے بھی افسوں ہوں گے اپنا موضوعِ سخن اِن کے سوا اور نہیں طبع شاعر کا وطن اِن کے سوا اور نہیں نقشِ فریادی کی آخری نظم ہے 'ہم لوگ' دل کے ایواں میں لیے گل شدہ شمعوں کی قطار نورِ خورشید سے سہمے ہوئے اکتائے ہوئے حسن محبوب کے سیال تصور کی طرح اپنی تاریکی کو بھینچے ہوئے لپٹائے ہوئے غایتِ سود و زیاں صورتِ آغاز و مآل وہی بے سود تجسس وہی بے کار سوال مضمحل ساعت امروز کی بے رنگی سے یادِ ماضی سے غمیں دہشت فردا سے نڈھال تشنہ افکار جو تسکین نہیں پاتے ہیں سوختہ اشک جو آنکھوں میں نہیں آتے ہیں اک کڑا درد کہ جو گیت میں ڈھلتا ہی نہیں دل کے تاریک شگافوں سے نکلتا ہی نہیں اور اِک الجھی ہوئی موہوم سی درباں کی تلاش دشت و زنداں کی ہوس چاکِ گریباں کی تلاش
Lyrics powered by www.musixmatch.com
instagramSharePathic_arrow_out